ریاستی جارحیت

فرض کریں: جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہاں ایک ٹی وی چینل کا کیمرہ مین نہ ہوتا، ہوتا اور رینجرز کے ذہن میں یہ بات آ جاتی کہ یہ ویڈیو ان کے لیے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے اور وہ اسے بھی ‘مقابلے’ کا حصہ بنا لیتے تو اس سارے معاملے پر بات کس طرح ہو رہی ہوتی؟ کیا اس بات سے انکار ممکن ہوتا کہ جنہیں رینجرز نے سرِ عام گولیوں کا نشانہ بنایا ہے وہ دہشت گرد نہیں تھے؟ یا رینجرز پر حملہ کرنے والے تھے؟
کیا کوئی وزیرِ داخلہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے اس بیان کی تردید کر سکتا جو نیچے سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر جاری کیا جاتا اور تردید کرتا بھی تو کون سنتا۔ یہاں تک کہ کیا عدالت عظمیٰ بھی اس کا نوٹس لینے کا تردد کرتی؟
ذرا ایک بار پھر ایک منٹ دو سیکنڈ کی وہ ویڈیو دیکھیں: کیسے سادہ کپڑوں والا ایک آدمی ایک نوجوان کو لا رہا ہے، کس طرح اسے بالوں سے پکڑ کر کیمرے کے سامنے منہ کرنے کے لیے کہتا ہے۔ کیسے اسے رینجرز اہلکاروں کے سامنے دھکیلتا ہے، پھر ان کی درمیان ہونے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ سنیے گولی لگنے سے پہلے اور گولی لگنے کے بعد نوجوان کی فریاد سنیے۔ اس دوران ایک ایک فریم میں رینجرز اہل کاروں کی جسمانی حرکات و سکنات یا باڈی لینگویج دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ رینجرز اہلکاروں کی اس ٹولی نے جو جرم کیا ہے وہ ان کے لیے نیا نہیں ہے؟ کیا یہ نہیں لگتا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کا یا ان کے شعبے کا ایک ایسا معمول ہے جس کے بارے میں انھیں یقین ہے کہ ان سے کوئی بھی کسی طرح کی باز پُرس نہیں کرے گا۔ اور اس میں ان میں سے کوئی یا دو کا یہ رویہ نہیں ہے سب کے سب برابر کے شریک ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی یہ کہتا دکھائی نہیں دیتا کہ گولی مت مارو، گرفتار کر لو۔ اور جب گولیاں مار ہی دی جاتی ہیں تو کوئی ایک بھی اس فریاد پر کان دھرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا ‘مجھے ہسپتال تو لے جاؤ، یار’۔
(بی بی سی اردو)

No comments:

Post a Comment

ShareThis