متحدہ ہندوستان میں قومی زبان فارسی تھی ، اور نظام تعلیم مشترکہ تھا، یعنی آج کی طرح اسلامی اور عصری تعلیم کے درمیان دیواریں حائل نہیں تھیں۔
چنانچہ ہرتعلیمی ادارے میں جہاں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی وہاں اس کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ ایک ہی تعلیمی ادارے سے جہاں انجینئر اور ڈاکٹر نکلتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اسی تعلیمی ادارے سے اسلامی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ علما بھی نکلتے تھے۔
اگر ایک طالبعلم کسی علاقے کا آئی جی ہوتا تھا تو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والا اس کا کلاس فیلو کسی تعلیمی ادارے میں شیخ الحدیث ہوتا تھا۔
یہ سلسلہ صدیوں تک جاری و ساری رہا ، لیکن پھر اسے دشمنوں کی نظر لگ گئی ، ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں کچھ گورے تاجر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک پر چھا گئے،
ان گوروں نے نہ صرف سونے کی چڑیا ہندوستان کو لوٹا بلکہ یہاں بسنے والے انسانوں کے ذہنوں کو بھی لوٹ لیا ، یہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو دین سے ہٹانے کے لئے کئی اقدامات کیے۔ قرآن پاک کے لاکھوں نسخے جلائے گئے، ہزاروں علما کو پھانسی دی گئی ، مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا کئے گئے جنہوں نے نئے نئے فرقے بنائے ، مثلا غلام احمد قادیانی، اعلیٰ حضرت، سرسید احمد خان، وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو برباد کرنے کے لئے ‘‘ لارڈ میکالے ’’ نے ایک نیا تعلیمی پروگرام شروع کیا اور اعلان کیا کہ ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے لوگ تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے انگلستانی۔
علما نے ان تمام خطرات کا بھرپور مقابلہ کیا چنانچہ 1857 کی جنگ آزادی ،اورعلما کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔
لارڈمیکالے کے تعلیمی پروگرام کے مقابلے میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کھڑے ہوئے اور دارلعلوم دیوبند کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ہمارے تعلیمی نظام کا مقصد ایسے لوگ تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں۔
لیکن بدقسمتی سے دشمنوں کو ہر دور میں میر جعفر ومیر صادق مسلمانوں کے اندر سے ہی ملے ہیں، چنانچہ وہ تعلیمی پروگرام جسے لارڈمیکالے نے شروع کیا تھا ، سرسید احمد خان نے اسے خوب پھیلایا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلامی اور عصری تعلیم کے درمیان دیوار کھڑی کردی۔
بہرحال اس بات کو ایک طرف رکھ کر اب ہم موازنہ کرتے ہیں کہ ملا اور مسٹر نے اپنے اپنے کام کا کتنا حق ادا کیا:
علما نے جس مقصد کے لئے دارلعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تھی اس مقصد کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے پورا کیا ، چنانچہ آج پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی ہر چیز تنزلی کی طرف جارہی ہے لیکن اسلامی تعلیم جس کا بیڑا علما نے اٹھایا تھا ترقی کرتے کرتے بہت اونچے مقام تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پوری دنیا سے سٹوڈنٹ اسلامی تعلیم مدرسوں میں حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ۔
عرب ممالک جو اھل لسان ہیں وہاں سے بھی سٹوڈنٹ پاکستانی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔
مدارس کا مقصد علما تیار کرنا اور دینی تعلیمات کی حفاظت کرنا تھا جسے الحمدللہ مدارس نے پورا کیا ، آپ کو کہیں بھی علما کی کمی نظر نہیں آئے گی۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان جو مدارس کا بورڈ ہے ، یہ واحد بورڈ ہے جس کے امتحانی سینٹر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مختلف ممالک میں قائم ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں بیک وقت پیپر شروع ہوتے اور ختم ہوتے ہیں۔
جب کہ اس کے مقابلہ میں اسکولوں کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہوسکا،
جب کوئی بڑا کام کرنا ہوتا ہے تو انجینئر باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ اہم عمارتوں کے نقشے بیرون ممالک میں تیار کروائے جاتے ہیں، دنیاکی ٹاپ 500 یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان یونیورسٹی نہیں ہے۔ جبکہ پاکستانی مدارس دنیا کے ٹاپ مدارس ہیں۔
اعلیٰ عصری تعلیم حاصل کرنے کے پاکستانی سٹوڈنٹ باہر جاتے ہیں جبکہ اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا سے سٹوڈنٹ پاکستان آتے ہیں۔
اکا دکا غلط واقعہ تو ہر جگہ ہوتا رہتا ہے البتہ مجموعی لحاظ سے دیکھا جائے تو مدارس والوں کا دامن بالکل صاف ہے اور انہوں نے اپنے کام کا حق ادا کیا ہے ۔ کسی بھی علاقے میں امام مسجد ، موذن، نکاح خوان ، مدرس ، قاری ، اور خطیب کی کمی نہیں آپ کو اپنی مرضی کے یہ سارے لوگ مل جائیں گے۔
جبکہ سرسید کے پیرو کاروں نے اپنے کام کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے، حکومت ، فوج، عدلیہ،پولیس،پٹواری،ہسپتالوں ، میں ہر جگہ آپ کو 99فیصد لوگ اسکولوں کے نظر آئیں گے اور ان محکموں کے حالات آپ کے سامنے ہیں، ہسپتالوں کے ڈاکٹر لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں اور پھر بھی ہڑتالیں کررہے ہیں کہ اضافہ کیا جائے، تعلیم کا حصول غریب آدمی کے بس میں نہیں۔
جبکہ مدارس میں آج بھی اس مہنگائی کے دور میں نہ صرف اول سے آخر تک مکمل تعلیم مفت دی جاتی ہے بلکہ کتابیں کھانا رہائش اساتذہ کی تنخواہیں،وغیرہ تمام اخراجات مدارس خود برداشت کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment