موبائل کے آداب

(۱)-بات شروع کرنے سے پہلے سلام کریں ۔اس لئے حدیث میں السلام قبل الکلام یعنی بات کرنے سے پہلے سلام کرو ۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب بات کرنے والے دونوں مسلمان ہوں ۔اگر کسی شخص کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے تو پھر السلام علیکم کے بجائے ہیلو آداب کہہ کربات کرسکتے ہیں ۔ اگر کسی مسلمان سے سلام کے بجائے صرف ہیلو کہہ کر بات شروع کریں ۔تو یہ بھی جائز ہے مگرخلافِ سنت ہے ۔ بات کے دوران بار بار ہیلو کہنے کی ضرورت پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
(۲)-موبائل پر جس سے بات کرنی ہے اگر اس سے تعارف نہ ہو تو سلام کے بعد پہلے اپناتعارف کراتے ہوئے یوں کہیں ۔
 السلام علیکم ! میں عبداللہ ہوں ، مجھے فلاں شخص سے بات کرنی ہے اگر جواب میں پوچھا گیا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ تو بے تکلف صحیح جگہ بتا دینا ضروری ہے اور اگر صرف آواز سے یا فون نمبر سے تعارف ہوجانے کا گمان یا یقین ہوتو پھر تعارف کرانا لازم نہیں ۔ قرآن کریم میں ہے :
 اے ایمان والو! کسی اجنبی کے گھر میں داخل نہ ہو جب تک سلام وتعارف نہ کراﺅ ۔ یہی حکم فون سے بات کرنے کے متعلق بھی ہے کہ سلام وتعارف سے آغاز ہو ۔
(۳)- موبائل میں میوزک والا رنگ ٹون رکھنا سراسر غیر شرعی اور گناہ کبیر ہ ہے ۔ اس لئے قرآن کریم نے ساز کو لھو الحدیث کہہ کر اس کی خرابی کو واضح کیا ہے اور حدیث میں ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، موسیقی سے بچو ۔
            ایک حدیث میں ہے ۔ میں ساز کو ختم کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ ایک اور حدیث میں ہے ساز اور گانا دل میں نفاق ایسے اُگاتاہے جیسے بارش سبزہ اُگاتی ہے ۔ اس لئے ہر وہ رنگ ٹون جس میں کسی بھی قسم کی وہ دُھن ہو جو میوزک میں شمار ہو ، رکھنا ‘ اسے بار بار سننا ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب تسلسل سے ہوتاہے اور نہ صرف خود تک یہ محدود رہتاہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس میں مبتلا کرتاہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ناپاکی کی چھینٹیں اس طرح اُڑا ئے کہ خود بھی ناپاک ہو اور دوسروں کو بھی ناپاک کردے ۔ اس بارے میں عوام میں بلکہ خواص میں بھی چونکہ طرح طرح کے میوزک ٹون رائج ہیں ، اس سے متاثر ہوکر اس کے حرام وغیر شرعی ہونے کو غیر اہم سمجھنا بہت ہی خطرنا ک ہے ۔ اس لئے کہ یہ حرام کو حرام نہ تسلیم کرنے کا وہ فاسد خیال ہے جس سے مسلمان کے ایمان کو ہی خطرہ لاحق ہوجاتاہے ۔ لہٰذا عمومی روش یا فیشن سے متاثر ہوئے بغیر سادہ رنگ ٹون رکھا جائے ۔
(۴)- وہ رنگ ٹون جو ناجائز نہیں ہیں مگر وہ اپنے اندر عجوبہ پن لئے ہوئے ہوںمثلاً بچے کے ہنسنے کی آواز ، چڑیوں کی چہچہاہٹ ، مرغ کی بانگ وغیرہ اس طرح کے رنگ ٹون بھی پسندیدہ نہیں ہیں ‘ اسلئے یہ ہر غیر متعلق شخص کو چند لمحوں کے لئے حیرانگی اور ذہنی خلفشار میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ اور بہرحال یہ کوئی مستحسن بات نہیں ہے ۔ اگرچہ اس کے جواز میں شک نہیں ہے ۔
(۵)- نماز کے دوران اگر موبائل کا سوئچ آن رہ جانے کی وجہ سے بجنے لگے تو ایک ہاتھ سے موبائل ضروربند کردینا چاہئے ۔ شریعت میں اس کو عمل قلیل کہتے ہیں جس سے نمازمیں کوئی خرابی نہیں آتی اور یہ ایسا ہی ہے جیسے جمائی لیتے ہوئے یا چھینک آنے پر منہ پر یا ناک پر ہاتھ رکھ لیا جائے ۔یا نمازکے دوران مکھی ،مچھرکوہٹانے کے لئے ہاتھ ہلایا گیا ۔ موبائل بند کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے نتیجے میں نمازیوں کو شدید خلل ہوتاہے ۔
(۶)-اپنے موبائل میں کسی گانے کا ٹون فیڈکرکے رکھنا جس سے ہر فون کرنے والے کوپہلے گانا سننا پڑے ،یہ بھی سخت گنا ہ ہے ۔ کیونکہ اس سے دوسرے انسان کو غیرشرعی آواز سنانے کا مسلسل ارتکاب پایا جاتاہے ۔ اس لئے سادہ اور متعارف رنگ ٹون رکھنا ہی لازم ہے اور دوسرے کو گانے سنانے یا گانے کا ٹون سنانے کے گناہ سے بچنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔
(۷)-وہ موبائل جس میں کیمرہ ہو ،رکھنا شرعاً جائز ہے مگر غیر شرعی تصویر سازی کرنا گناہ ہے اس سے پرہیزکرنا لازم ہے ۔ ہاں ضرورت کی جگہ اور جائز تصویر کشی میں مضائقہ نہیں ہے ۔
(۸)-رنگ ٹون میں قرآن کریم کی آیت کوئی دُعا درود شریف ، یا کسی نعت کا ساز رکھنا بھی سخت گناہ ہے ۔ اس لئے کہ یہ اُن مقدس کلماتِ مبارکہ کا بے محل استعمال ہے اور اس کو شرعاً ممنوع قرار دیا گیا ۔ خصوصاً آیات قرآن کو بطور رنگ ٹون رکھنا سخت گنا ہ ہے۔
(۹)- اسی طرح نیند سے جب بیدارہونے کے لئے الارم رکھا جائے مگر عام قسم کی گھنٹی کے بجائے اذان فیڈ کرکے رکھنا یا کوئی آیت قرآنی یا کوئی دعا بطور الارم رکھنا غیر شرعی ہے ۔ اس لئے کہ یہ اذان کے کلمات یا آیات قرآنی کاا س محل اور غرض کے لئے استعمال ہے جو اس غرض وغایت اور اس ہدف ومحل سے الگ جس کے لئے یہ دونوں عطا ہوئے ہیں ۔
(۱۰)-بعض مسجدوں میں نماز سے پہلے موبائل کا سوئچ بند کرنے کا باقاعدہ اعلان ہوتاہے ۔ یہ اعلان نہ صرف جائز بلکہ مناسب اور مستحسن ہے ۔ اسلئے کہ یہ اعلان نماز کو اس ممکنہ خلل سے بچانے کی غرض سے ہے جو رِنگ بجنے کی صورت میں لاحق ہوسکتاہے اور ہر پیش آنے والے خلل کا قبل ازوقت سدباب بہترہی ہے ۔
(۱۱)-بہت سے لوگ خصوصاًنوجوان موبائل کو گانے سننے اور فوٹوگرافی کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ حدیث سن لی جائے کہ علامہ قرطبی نے لکھاکہ جو کسی رقاصہ کو دیکھے یااس کا گانا سنے قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ گرم کرکے ڈالا جائے گا ۔
            بلاضرورت تصویر کشی اور وہ بھی کسی غیر محرم کی ، حرام ہے ۔اور گانے سننا تو لازماً حرام ہی ہے ۔
            اسی طرح بہت سے لوگ موبائل پر رقص ، ڈرامے یافلمیں دیکھتے ہیں ۔ قرآن کریم میں صاف ارشاد ہے ۔
            فحش کاموں کے نزدیک بھی مت جاﺅ ۔ چاہے وہ کھلے ہوئے فحش کام ہوں یا چھپے ہوئے ۔ (القرآن )
            فحش حرکات ، فحش کلام ، فحش لباس ، فحش انداز کے بوس و کنار وغیرہ سب کچھ اس میں داخل ہیں اور قرآن کی رو سے یہ سب حرام ہیں ۔
(۱۲)-بہت لوگ موبائل پر گیم کھیلتے ہیں ۔ یا کرکٹ میچ دیکھتے ہیں ، یہ چونکہ وقت ضائع کرنے کا کام ہے اور جس سے نہ کوئی دماغی فائدہ ہوتاہے نہ جسمانی فائدہ ۔ اور شریعت اسلامیہ کا ضابطہ یہ ہے کہ جس کھیل میں صرف وقت ضائع ہو مگر نہ جسم کو ، نہ ذہن کو نہ دماغ کو کوئی فائدہ ہو، اسے لغو کام قرار دیتاہے ۔ اور قرآن کریم میں اہل ایمان کا ایک اہم وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ لغو کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور حدیث میں ہے کہ انسان کی دینداری اور اسلام میں عمدگی او رحسن اس وقت پیدا ہوتاہے جب وہ ایسے تمام کاموں سے پرہیز کرے جو بے فائدہ ہوں ۔ ایسے کاموں کو حدیث میں ”لایعنی “ کام کہاجاتاہے کہ جن کا نہ دینی نفع ودینوی ، نہ جسمانی نہ مالی ، نہ قلبی نہ ذہنی اور ظاہر ی۔ یہ حدیث بخاری شریف میں ہے ۔
(۱۳)-بہت سے لوگ دوسرے شخص سے موبائل لے کر ان سے فون کرتے ہیں اور اس میں یہ نہیں دیکھتے کہ موبائل والے شخص کا کتنا پیسہ خرچ ہورہاہے۔کبھی وہ رواداری میں اندر ہی اندر کڑھتا ہے اور فون کرنے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا۔کسی کا موبائل لے کر بلا دھڑک ضروری وغیر ضروری کی پرواہ کئے بغیر باتوں میں مشغول رہنا غلط ہے ۔ اس سلسلے میں شرعی حکم یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے شخص چاہے وہ قریب سے قریب تر ہو،کا فون لے کر جب بات کی جائے تو اہتمام اور اصرار سے اس کو کہنا ضروری ہے کہ میرے کال کرنے پر آ پ کے اتنے روپے خرچ ہوگئے اور یہ کہہ کر اتنی رقم اصرار کے ساتھ دے دیں ۔ اگر وہ نہ لیں تو دعائے خیر اور دعائے برکت کے بعد اس کا احسان قبول کریں۔ کوئی شخص بربنائے ضرورت موبائل دے تو اسے لے کر غیر ضروری باتوں میں مست ہو جانا اور دوسرے شخص کی رقم کا بے فائدہ خرچ کرتے جانا سخت بد اخلاقی تو ہے غیر شرعی بھی ہے ۔
(۱۴)-موبائل کی سکرین میں قرآن کریم کلمہ طیبہ یا اللہ ، یا محمدسیٹ کرکے رکھنا جائز ہے مگر جب وہ سکرین پر ہو تو اس وقت موبائل سیٹ بیت الخلاءلے جانا درست نہیں ہے ۔ ہاں اگر سکرین پر آیت وغیرہ نہ ہو تو پھر حرج نہیں ۔ اس طرح سکرین پر اگر قرآن کریم کی آیت ہو تو بلا وضو اسے چھونا منع ہے اور بیت الخلاءلے جانا منع ہے ۔
(۱۵)- مسجد کے اندر موبائل پر غیر ضروری دینوی باتیں کرنا منع ہے ۔ اسی طرح تجارتی گفتگو کرنا بھی منع ہے ۔اسی مزاج اور مذاق کی غیر سنجیدہ باتیں کرنا بھی منع ہے ۔ اس لئے کہ یہ سب مسجد سے ہوا کرتا ہے ۔
(۱۶)-انسان کبھی دوسری جگہ اپنا موبائل چارج کرتاہے ۔ اگر یہ کسی کے گھر میں سے چارج کیا گیا تو اس کی اجازت لازم ہے ۔ اگر کسی مسجد ، مدرسہ ،یا عوامی ادارے سے چارج کیا گیا تو کچھ نہ کچھ رقم جو ایک فل چارج کی فیس بن سکے ضرور ادا کرنا لازم ہے ۔ اس لئے محلے والے اپنے گھر کے بجائے اگر مسجد میں آکر موبائل چارج کرنے لگیں تو زیادہ گناہ ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے گھر میں یہ کام کرسکتے ہیں ۔ گھر نزدیک ہونے کے باوجود مسجد میں چارج کرنے لگتیں ۔ البتہ مسافر اور معتکف کو اس کی اجازت ہے مگر فیس کے بقدر رقم ضرور داخل کریں ۔ صرف مسجد کے مو

¿ذن یا کسی مدرسہ کے عمومی ملازم کی اجازت کافی نہیں ہے ۔
(۱۷)-موبائل کے لئے کسی کو اذیت پہنچانا ویسے حرام ہے جیسے اپنے ہاتھ ، زبان سے اذیت پہنچانا غیر شرعی ہے ۔حدیث میں ہے مسلمان کا مل وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ (بخاری)
            موبائل فون سے پریشان کرنے کی بہت سی شکلیں ہیں مثلاً مِس کال دے کر پریشان کرنا یا آرام کے وقت بار بار رنگ کرنا اور فوراً کاٹ دینا ، فون کرنا تاکہ گھنٹی بجنے میں دوسرا شخص بیدار ہوکر اٹھے ۔ اس کی نیند خراب کرکے پھر فوراً بند کردینا ۔ دوسرے کا موبائل لے کر نصف رات کسی کو فون کرکے نیند خراب کردی اور پھر خود سوئچ آف کردیا ۔ اگلے دن فون والے اور نیند خرابی کا شکار ہونے والے کے درمیان ایک طویل لڑائی کا آغاز ہوا اور تماشہ دیکھنے والا لطف اٹھاتا رہا ۔ بہرحال یہ حرام ہے ۔
(۱۸)-اُستاد کا دوران درس ،لیکچرار یا ریڈر کا کلاس میں ، قرآن کریم پڑھانے والے استادکا سبق سننے کے وقت ، ڈاکٹر کا مریض کوملاحظہ کرنے کے وقت خصوصاً سرکاری اسپتال میں ، اسی طرح کسی ملازم کا سرکاری ڈیوٹی کے دوران کسی غیر متعلقہ کام سے متعلق بات کرنے میں شرعی حکم یہ ہے کہ موبائل بند رکھاجائے اور اس طرح بند رکھنے پر کسی کو اعتراض کرنے کابھی حق نہیں ہے ۔ ہاں اتنی مختصر بات جس سے اپنے اصل مفوضہ کام میں کوئی حرج نہ ہو اتنی دیر کے لئے موبائل آن کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے

No comments:

Post a Comment

ShareThis