کاش میں ”خُدا“ ہوتی
کاش میں ”خُدا“ ہوتی !!
مضمون کا عنوان پڑھ کر آپ حیران ضرور ہوئے ہونگے کہ عجیب بے تکا سا گستاخانہ عنوان ہے لیکن تھوڑا سا تحمل اور برداشت سے کام لیں کیونکہ اگر عنوان پڑھ کر ہی آپ دلبرداشتہ ہو جائیں گے توباقی سارا مضمون ادھورا رہ جائے ۔ تو دل پر ہاتھ رکھ کر ” استغفار “ اور ” نعوذ باﷲ “ کی تسبیح کا ورد کرتے ہوئے مضمون کو پڑھنا شروع کریںکیونکہ عنوان میرا خود ساختہ نہیں بلکہ ۔۔۔! ” جیم“ نما نشان سے خود کو متعارف کروانے والے ایک معروف ابلاغی ادارے کے مکمل تعاون سے حال ہی میں بنائی گئی ایک فلم کا ہے جس فلم کا مرکزی خیال ” جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کیا“ یعنی ” دو بچے ہی اچھے “ اور” غیر دیندار گھرانہ خوشحال گھرانہ“ ہے۔
اس فلم پر زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص نے تبصرے کیے!ملک کے ایک مشہور اخبار کے صحافیوں سے گفت وشنید کا اتفاق ہوا۔ ان اخبار نویسوں میں سے اکثر کی یہ رائے تھی کہ ”فلم “ بڑی ہٹ ہوئی ہے اور پاکستان نے اس فلم کے ذریعے کروڑوں کا بزنس کیا ہے ۔صحافی برادری کا خیال تھا کہ پاکستانی تاریخ میں یہ خوش آئند بات ہے اس سے ملک کے معاشی بحران میں کمی واقع ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔ خیر صحافی بھائیوں کی گفتگو سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا کیونکہ اسی اخبار کے ایک صاحب قلم نے اس فلم کی کچھ حقیقت ِ حال کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان کے سامنے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا اور اس کے علاوہ کچھ سنی سنائی باتیں بیان کیں تو کوئی ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ان حضرات کا یہ رویہ دیکھ کر میں بھی متذبذب ہوگیا اور کہنے لگا کہ بھائی میں نے بھی خود تو نہیں دیکھی بس ایک صاحب قلم کی لکھی ہوئی بات تمہارے سامنے بیان کی ہے اور چند سنی سنائی سی باتیں۔ آخر کار فیصلہ اس بات پر ہواکہ تحقیق کے لیے فلم دیکھی جائے۔ بہر حال ابتداءسے انتہاءتک دیکھنے کی ہمت وجرات توکسی میں نہ تھی کیونکہ اس فلم میں اسلام کا جس انداز سے مذاق اڑایا گیا ہے اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو جس طرح سے مسخ کیا گیا ہے ، اسلامی طرزِ معاشرت کو اس قطع وبرید کے ساتھ پیش کیا گیاہے جیسا کہ وہ بے جان جسم جس کے ناک ، کان ، ہونٹ کاٹ دیے گئے ہوں ، آنکھیں باہر نکال دی گئی ہو اور اس جسم کا کوئی پرسا نِ حال نہ ہو ۔ اس لاوارث لاشے کو دیکھ کر لوگ جس طرح خوف اور ہیبت محسوس کرتے ہیں اسی طرح یہ فلم دیکھنے کے بعد ناسمجھ لوگ اسلام سے خوف کھانے لگیں۔
اس فلم پر زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص نے تبصرے کیے!ملک کے ایک مشہور اخبار کے صحافیوں سے گفت وشنید کا اتفاق ہوا۔ ان اخبار نویسوں میں سے اکثر کی یہ رائے تھی کہ ”فلم “ بڑی ہٹ ہوئی ہے اور پاکستان نے اس فلم کے ذریعے کروڑوں کا بزنس کیا ہے ۔صحافی برادری کا خیال تھا کہ پاکستانی تاریخ میں یہ خوش آئند بات ہے اس سے ملک کے معاشی بحران میں کمی واقع ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔ خیر صحافی بھائیوں کی گفتگو سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا کیونکہ اسی اخبار کے ایک صاحب قلم نے اس فلم کی کچھ حقیقت ِ حال کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان کے سامنے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا اور اس کے علاوہ کچھ سنی سنائی باتیں بیان کیں تو کوئی ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ان حضرات کا یہ رویہ دیکھ کر میں بھی متذبذب ہوگیا اور کہنے لگا کہ بھائی میں نے بھی خود تو نہیں دیکھی بس ایک صاحب قلم کی لکھی ہوئی بات تمہارے سامنے بیان کی ہے اور چند سنی سنائی سی باتیں۔ آخر کار فیصلہ اس بات پر ہواکہ تحقیق کے لیے فلم دیکھی جائے۔ بہر حال ابتداءسے انتہاءتک دیکھنے کی ہمت وجرات توکسی میں نہ تھی کیونکہ اس فلم میں اسلام کا جس انداز سے مذاق اڑایا گیا ہے اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو جس طرح سے مسخ کیا گیا ہے ، اسلامی طرزِ معاشرت کو اس قطع وبرید کے ساتھ پیش کیا گیاہے جیسا کہ وہ بے جان جسم جس کے ناک ، کان ، ہونٹ کاٹ دیے گئے ہوں ، آنکھیں باہر نکال دی گئی ہو اور اس جسم کا کوئی پرسا نِ حال نہ ہو ۔ اس لاوارث لاشے کو دیکھ کر لوگ جس طرح خوف اور ہیبت محسوس کرتے ہیں اسی طرح یہ فلم دیکھنے کے بعد ناسمجھ لوگ اسلام سے خوف کھانے لگیں۔
خیر فلم چلتی رہی اور ایک ایک کر کے صحافی برادری استغفار پڑھتے ہوئے اٹھتی چلی گئی۔ اب یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس فلم میں روا اسلامی توہین آمیز ہر ہر ادا کو نوٹ کیا گیا ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ جو بات بھی لکھی گئی ہے وہ سو فیصد درست لکھی گئی ہے ۔ بڑھا چڑھا کر نہیں ! تو فلم کی روداد سنائے دیتے ہیں۔ نقل ِ کفر ۔ کفر نہ باشد!
اسلامی معاشرہ! انتہائی سخت ، ذ لت آمیز، حقارت بھرا، جھوٹ فراڈ پر مبنی، زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار، مار پیٹ کا علمبردار، غیرت کے نام پر قتل تک کی گنجائش، گھروالوں کو دھونس دھمکی اور ہمیشہ رعب میں رکھنا ، بات بے بات گالم گلوچ ، گھر کا ماحول ایسا آسیب زدہ ، نحوست بھرا ، رعب خوردہ کے دو بندوں کو گھر میں ہنس کر بات تک کرنے کی گنجائش نہیں ، دین کے داعی کو” دیوان اقبال “ تک سے اپنی مرضی کا فال نکالنے کی اجازت اور گھر والوںکا جائے نماز سے اٹھنا بھی محال ، بازار ِ حسن میں عصمت فروشی کرنے والی سے خلوت نشینی کر کے لڑکی جنوانے کے عوض ایڈوانس رقم لینا ۔ اس ایگریمنٹ کے ساتھ کہ لڑکی بھی عصمت فروشی کرے گی ۔ دین کا ٹھیکے دار شرافت واخلاق سے گری ہوئی اس حرکت کے ارتکاب کے لیے مسجد میں جاکر قرآن مجید سے فال نکالتا ہے جو کہ اس کے حق میں درست نکلتا ہے اور اس گری ہوئی حرکت کو کرنے سے پہلے سنت ِ رسول کو گٹر میں بہا دیتا ہے، یہ ساری تصویر کشی ایک دینی گھرانے کی کی گئی ہے۔غرض فلم کے اندر ہر طرح کی تکالیف اور مصیبتوں میں گھرے اس گھر کو جھنم نظیر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے مدِ مقابل روشن خیال اور غیر دینی گھرانے کو دکھایا گیا ہے جن کی زندگی کو انتہائی خوش وخرم دکھایا گیاہے کیونکہ اس روشن خیال گھرانے نے ” دو بچے ہی اچھے “ کے فارمولے پر عمل کیا ہوتا ہے۔اس گھرانے کی تعلیم وتربیت ،خوراک وپوشاک انتہائی اعلیٰ اور معیاری ، ان کے مزاج میں نرمی شائستگی ، اخلاق وکردار بظاہر اچھا ، گھر میں خوشحالی اور ہر قسم کی فراخی ۔ نہ مار پیٹ نہ دھونس دھمکی کا ماحول ، نہ خوف وحراس کی باز گشت ۔غرض ہر طرح کی مسرتوں اور خوشحالیوں سے بھرپور جنت نظیر گھرانے کے طور پراس خاندا ن کو دکھایا گیا ہے۔
اسلامی معاشرہ! انتہائی سخت ، ذ لت آمیز، حقارت بھرا، جھوٹ فراڈ پر مبنی، زیادہ بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار، مار پیٹ کا علمبردار، غیرت کے نام پر قتل تک کی گنجائش، گھروالوں کو دھونس دھمکی اور ہمیشہ رعب میں رکھنا ، بات بے بات گالم گلوچ ، گھر کا ماحول ایسا آسیب زدہ ، نحوست بھرا ، رعب خوردہ کے دو بندوں کو گھر میں ہنس کر بات تک کرنے کی گنجائش نہیں ، دین کے داعی کو” دیوان اقبال “ تک سے اپنی مرضی کا فال نکالنے کی اجازت اور گھر والوںکا جائے نماز سے اٹھنا بھی محال ، بازار ِ حسن میں عصمت فروشی کرنے والی سے خلوت نشینی کر کے لڑکی جنوانے کے عوض ایڈوانس رقم لینا ۔ اس ایگریمنٹ کے ساتھ کہ لڑکی بھی عصمت فروشی کرے گی ۔ دین کا ٹھیکے دار شرافت واخلاق سے گری ہوئی اس حرکت کے ارتکاب کے لیے مسجد میں جاکر قرآن مجید سے فال نکالتا ہے جو کہ اس کے حق میں درست نکلتا ہے اور اس گری ہوئی حرکت کو کرنے سے پہلے سنت ِ رسول کو گٹر میں بہا دیتا ہے، یہ ساری تصویر کشی ایک دینی گھرانے کی کی گئی ہے۔غرض فلم کے اندر ہر طرح کی تکالیف اور مصیبتوں میں گھرے اس گھر کو جھنم نظیر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے مدِ مقابل روشن خیال اور غیر دینی گھرانے کو دکھایا گیا ہے جن کی زندگی کو انتہائی خوش وخرم دکھایا گیاہے کیونکہ اس روشن خیال گھرانے نے ” دو بچے ہی اچھے “ کے فارمولے پر عمل کیا ہوتا ہے۔اس گھرانے کی تعلیم وتربیت ،خوراک وپوشاک انتہائی اعلیٰ اور معیاری ، ان کے مزاج میں نرمی شائستگی ، اخلاق وکردار بظاہر اچھا ، گھر میں خوشحالی اور ہر قسم کی فراخی ۔ نہ مار پیٹ نہ دھونس دھمکی کا ماحول ، نہ خوف وحراس کی باز گشت ۔غرض ہر طرح کی مسرتوں اور خوشحالیوں سے بھرپور جنت نظیر گھرانے کے طور پراس خاندا ن کو دکھایا گیا ہے۔
فلم کے ڈائیلاگ! نعوذ باﷲ کی تسبیح کے ساتھ۔۔۔!
حکیم صاحب جو پوری فلم میں دین کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اس کے گھر نامرد لڑکے کی ولادت پر ہجڑا کہتاہے کہ فرشتے غلطی سے ہماری ایک چیز تمہارے ہاں دے گئے ہیں۔ حکیم صاحب اپنی بیٹی سے کہتاہے: رز ق کا ذمہ تو اﷲ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو پھر ضرور فرشتوں کے پاس ہمار ا پتہ غلط لکھاہوگا کیونکہ ہمارے گھر تو رزق نہیں پہنچ رہا! دنیا میں جو اتنے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو کیا وہ اس لیے مر رہے ہیں کہ ”خدا “ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا؟ باپ کہتا ہے : نعوذبا اﷲ کہہ خبیث ۔ تو اس پر لڑکی کہتی ہے : آپ کہیں نعوذ بااﷲابا ۔ کیونکہ میں تو اﷲ کی عزت بڑھا رہی ہوں۔ لڑکی پھر گویا ہوتی ہے : حکیم شفائت اﷲ نے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اور ماسٹر اختر حسین نے کتنے ۔۔۔یہ اﷲ میاں بیٹھ کر فرشتوں کو نہیں لکھواتے!
حکیم صاحب حدیث سناتے ہیں:” زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کروکہ میں (محمد )قیامت کے روز اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا“ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو بہ کریں ابا! اتنے بڑے پیغمبر ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ کہاہوگا انہوں نے بڑی ہو میری امت عزت میں، رتبے میں، ترقی میں ۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں، چاہے فاقے کاٹ کر مر رہے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں! ایک مقام پر بیٹی کہتی ہے : کاش میں خدا ہوتی ! میں ہر مرد سے ایک بچہ جنواتی ۔ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی شکست پر بیٹی والد سے کہتی ہے : ابا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اﷲ اوپر بیٹھ کر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ انضمام نے کتنے رنز بنانے ہیں اور ٹنڈولکر نے کتنے؟ سارے پاکستانی دعائیں کرتے ہیں اور آسٹریلیا والے بغیر دعاوں کے ہی 20 سال سے جیت رہے ہیں۔ انڈیا پاکستان کا میچ کیا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان نے اﷲ کو پریشان کیا ہوتاہے اور سارے انڈیا نے بھگوان کو مصیبت میں ڈالا ہوتا ہے۔ اگر ا ﷲ میاں نے ہی میچ جتوانا ہوتا تو 17، 17 سال کیوں لگادیتے ہمیں میچ جتوانے میں؟
ایک مقام پر لڑکی باپ سے کہتی ہے: آپ کا اور میرا خدا جدا جدا ہے کیونکہ جو دین آپ ہم پر ٹھونس رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ حکیم صاحب نامرد بیٹے کے بارے میں کہتا ہے: میرا بیٹا سوّر سے بھی بدتر تھااسی وجہ سے اس کو میں نے قتل کیا۔ نامرد بیٹے کے قتل کے بعد حکیم کہتا ہے : اسے قتل کر کے میں نے خدا کی غلطی کو ٹھیک کر دیا۔ ایک مقام پر کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں اور بیٹا پیدا کرنے کا ہنر مرد ہی کا ہے۔ بیٹی باپ سے کہتی ہے: بیٹیو ں کی قطار لگائی آپ نے خود۔۔۔! اور نام لگا رہے ہیں” اﷲ“ کا۔ آخر میں لڑکی ناظرین سے التجاءکرتی ہے : لوگوں سے کہو ! اور بھیک منگے پیدا مت کرو! روتی صورتیں اور بسورتی زندگیاں پہلے ہی بہت ہیں۔”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔“ اور لڑکی کہتی ہے میرا سوال یہ ہے کہ : صرف مارنا ہی جرم ہے پیدا کرنا کیوں نہیں ؟
حرمت ِ قرآن پر تو مسلم امہ یک جاں ویک زباں ہوجایا کرتے تھے ۔ پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ، جلسے ، جلوس شروع ہوجاتے تھے ۔ ناموس رسالت پر تو پوری دنیا کو ناکوں چنے چبوائے جاتے تھے ۔ امہات المومنین کے احترام کو اگر مجروح کیاجاتا تو ازواج مطہرات کی شان پر مرمٹنے والے چین سے نہیں بیٹھتے تھے ۔ لیکن نہ جانے امت مسلمہ کو کوئی سانپ سونگ گیا ، ان کے بیدار ضمیروں کو کوئی لاری لپے دے کر سلا گیا، نہ جانے ان کے غیرت وحمیت کے جنازے کو کوئی کندھا دے کر دفنا گیا، امت مسلمہ کے یک لخت جسم میں انجانے رہزنوں نے نقب زنی کی اور کھرچی لے کر ان کے قلب سے حب رسول ، ازواج حب رسول ، اصحاب حب رسول کے پودوں کو ایک ایک کر کے اکھاڑ پھینکا ! یا پھر اُمت ِمسلمہ کو کانوں کان اس کی خبر ہی نہیں ہوئی ، یا ان غلیظ اور توہین آمیز مناظر کو ان کی آنکھوں نے دیکھنا گوارہ نہ کیا۔
ماقبل میں ذکر کیے گئے کفریہ ڈائیلاگ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس فلم میں ان سارے جرائم اور گناہوں کا ارتکاب کیا گیا ۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے نکل گئے ہیں کہ خدا بننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور اﷲ کے آخری نبی جناب محمد الرسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا انکار کر کے کہا گیاہے کہ نعوذ با ﷲ ہم حدیث میں اپنی مرضی کی تاویل کر کے حضور ﷺ کی عزت بڑھا رہے ہیں۔۔۔! سر عام اس قسم کی گستاخیاں کی گئیں ، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کیے گئے ، اسلام کے بنیادی عقیدے ” تقدیر “ کے متعلق اول فول بکا گیا ۔فرشتوں کی توہین کا ارتکاب کیا گیا ، اسلام کے بنیاد میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی ۔ جو غیروں سے پچاس سالوں میں نہ ہوسکا ” آستین کے سانپ “ کی مانند اپنوں نے وہ ایک فلم کے ذریعے ہی کرڈالالیکن۔۔۔! اعلیٰ عہدوں پر فائز کسی سرکاری وغیر سرکای شخصیت کی جانب سے نہ تو اس پر کوئی ایکشن لیا گیا اور نہ ہی مذمتی بیان آیا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی احتجاج بھی اس فلم پر رکارڈ نہیں کیا گیا۔ اسلام کی دعوے دار جماعتیں بھی اس معاملے پر تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ کسی تنظیم یا اعلیٰ شخصیت کی جانب سے شعائر اﷲ اور شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرنے والی ،درجن بھر گستاخیوں کی جامع اس فلم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ تعجب اس فلم کے بنانے والوں پر نہیں خاموش رہنے والوں پر ہے !
ا س فلم کا مشہور ڈائیلاگ جو زبان زد عام ہوچکا ہے یہ ہے کہ ۔۔۔” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ! کیا رزق کے ذمہ دار والدین ہیں ؟قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو ۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کوبھی ۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے ۔ (سورة ھود : آیت نمبر ۵) ۔ پانی کے اندر مچھلیوں کو رزق دینے والا کون ہے ؟ جنگلوں میں جانوروں کی پرورش کرنے والا کون ہے ؟صحراوں اور بیابانوں میں مختلف النوع حشرات کے رزق کا کفیل کون ہے ؟پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر بسنے والے کیڑوں کو ان مہر زدہ چٹانوں میں زرق کو ن مہیا کرتا ہے ؟ فضاوں میں اڑنے والے پرندوں اور زمین پر رینگنے والی مخلوق کا پیٹ کون بھرتاہے اس نیلگوں آسمان تلے پرورش پزیز مختلف الانواع قسم کی مخلوقات کے رزق کا کفیل جب وہ قادر ِ مطلق ذات ہے تو اشرف المخلوقات کے تمغہ امتیاز سے نوازے گئے اس نبی نوع انسان کے رزق کا ذمہ داراس ذات کے سوا کون ہوسکتا ہے ۔؟
جب رزق کا ذمہ اﷲ کاہے تو اس جملے ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ کا کیا مقصد؟اﷲ پر تہمت زنی کرنے والی اس بدبخت لڑکی کے اس جملے پر ذرا غور کرومسلمانوں! ” فرشتوں کے پاس ضرور ہماراایڈیس غلط لکھا ہوگا“ کیونکہ ہمارے ہاں تو رزق نہیں پہنچ رہا“ تو اس فقرے کا کیا مطلب ؟کیا ماقبل میں ذکر کی گئی قرآن کی آیت کا صریح انکار نہیں ؟کیا معاشی بدحالی کی صورتیںدکھا کر ” مسلم نسل کشی “ کی مہم پرپلیننگ کے تحت عملد رآمد شروع کردیا گیا ہے ۔ خاندانی منصوبہ بندی کا ڈونگ رچانے کے بعد ،” دو بچے ہی اچھے“ کا نسخہ متعارف کروانے کے بعد ” کم بچے خوشخال گھرانہ “جیسے فقرے جو مٹھائی میں زہر بند کرنے کے مترادف ہے کی شاندار کامیابی کے بعد اب نیا جملہ مارکیٹ میں لایا گیا ہے ! کہ ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ۔ ظالموں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش مت کرو۔ اپنی وفاداری کی تاریخ رقم کرنے کی فکر میں مسلمانوں کی نسل کشی مہم کا حصہ مت بنو ، کھلتے پھولوں کو مسل کر ان سے زندگی کا حق مت چھینو!
فلم کے ایک سین میں پیغمبر دو جہاں ﷺ پر نازل کی گئی آخری الہامی کتاب ”قرآن مجید “ کی بے حرمتی اس انداز میںکی گئی کہ ۔۔۔تھانیدار ایک حکیم صاحب سے قتل کی تفتیش کے دوران سگریٹ کی مالش کرتے ہوئے اس میں تمباکو برابر کرتے ہیں اور احترام اور تقدس کا خیال دل میں لائے بنا دراز سے قرآن کریم کے نسخہ کو نکالتے ہیں اور سامنے برا جمان حکیم صاحب کے سامنے میز کے کنارے پر قرآن کریم رکھتے ہوئے( بلکہ تقریباً پٹختے ہوئے) اس پر ہاتھ رکھ کر صدق بیانی کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حکیم صاحب بظاہر قرآن کے تقدس کا لاج رکھتے ہوئے اس پر ہاتھ رکھنے سے احتراز کرتے ہیں اور اعتراف جرم کرلیتے ہیں ۔ تھانیدار صاحب بغیر کسی ظاہری وباطنی احتیاط واحترام کے قرآن مجید کو اٹھا کر دراز میں رکھ دیتے ہیں اور چند لمحے توقف کے بعد پھر سے سگریٹ کو سلگانے لگتے ہیں۔
اس گھناونی فلم کا ایک تاریک منظر یہ بھی ہے کہ۔۔۔ حکیم صاحب کی بیٹی کے رشتے کے سلسلے میں آئے ہوئے مہمان دوران گفتگو حکیم صاحب سے یہ کہتے ہیں کہ دولہا کا نام تو ” مصطفی“ ہے اور تمہاری بیٹی کا نام ” عائشہ “ ہے یہ بھی اچھی بات ہے کیا ہی مقدس سنت پوری ہو رہی ہے، جس پر حکیم صاحب گویا ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح تو میری دیگر بیٹیوں کے نام بھی ازواج مطہرات کے ناموں جیسے ہی ہیں تو کیا (نعوذ بااﷲ) میں ان کی شادی بھی ” مصطفی “ سے کروادوں!
فلموں میں پیغمبر دوجہاں ﷺ کے پاک نام کو استعمال کرنا، آپ کی ازواج مطہرات کے مقدس ناموں کا استعمال کرنا۔ غلیظ اور کمینے جوڑے کی جھوٹی شادی کو آقائے نامدار ﷺ کی ازدواجی زندگی سے تعبیر کرنا، دیگر بیٹیوں کے نام ازواج مطہرات کے ناموں سے مشابہہ رکھ کر اس فلم کے کردار اور نبی آخر الزمان ﷺکے مابین مشابہت اور تمثیل کی صورت پیش کر کے پیغمبر انقلاب کی ازدواجی حیثیت کو مجروح کرنا۔ یہ کہاں کا انصاف ، کہاں کی شرافت ، کہاں کی انسانیت اور کہاں کی مسلمانی ہے ؟امت محمدیہ کے نوخیز نسلوں کی آبیاری جب اس طرح بدبودار متعفن ماحول میں کی جائے گی، ان کھلتے پھولوں کے اخلاق وکرادار کو جب اس طرح روندا اور کچلا جائے گا۔ امت مسلمہ کے ان ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کو جب اس طرح کی آلودہ فلمیں دکھائی جائیں گی تو رفتہ رفتہ ان کے پاک قلوب بھی آلودگی کا شکار ہونے لگیں گے ، ان کے کچے ذہنوں میںخباثت اگلتی یہ فلمیں انمٹ نقش چھوڑ دے گی اور لادینیت کے بہتے طوفانوں میںبے سہارے تنکوں کی طرح انہیں بہا لے جائے گی۔ وہ طوفان جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ ہی کوئی منزل ، وہ کشتی جس کا نہ کوئی ملاح ہو نہ ہی کوئی مسافر ۔ بستیاں اجاڑتے اس طوفان میں جو اس تنکے اور بے سہارا کشتی کا حال ہوتا ہے کہ کبھی ایک چٹان سے ٹکراتی ہے تو کبھی دوسرے چٹان سے ۔ ایک بھنور میں سے نکلتی ہے تو دوسری کھائی اس کی منتظر نظر آتی ہے۔ تباہی پھیلانے والے اس طوفان کے مدوجزر کے رحم وکرم پر جس کشتی کو چھوڑ دیا جائے تو اسے پاش پاش ہونے سے کون روک سکتاہے ؟ اس کشتی کو ریزہ ریزہ ہو کر اس طوفان کا حصہ بننے سے کون روک سکتا ہے؟چند ہی لمحوںمیں اس کشتی کا نام ونشان ختم ہوکر رہ جائے گا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی اس طوفان میں شدت کا باعث بن سکے گی اور بس!
حکیم صاحب جو پوری فلم میں دین کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اس کے گھر نامرد لڑکے کی ولادت پر ہجڑا کہتاہے کہ فرشتے غلطی سے ہماری ایک چیز تمہارے ہاں دے گئے ہیں۔ حکیم صاحب اپنی بیٹی سے کہتاہے: رز ق کا ذمہ تو اﷲ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو پھر ضرور فرشتوں کے پاس ہمار ا پتہ غلط لکھاہوگا کیونکہ ہمارے گھر تو رزق نہیں پہنچ رہا! دنیا میں جو اتنے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو کیا وہ اس لیے مر رہے ہیں کہ ”خدا “ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا؟ باپ کہتا ہے : نعوذبا اﷲ کہہ خبیث ۔ تو اس پر لڑکی کہتی ہے : آپ کہیں نعوذ بااﷲابا ۔ کیونکہ میں تو اﷲ کی عزت بڑھا رہی ہوں۔ لڑکی پھر گویا ہوتی ہے : حکیم شفائت اﷲ نے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اور ماسٹر اختر حسین نے کتنے ۔۔۔یہ اﷲ میاں بیٹھ کر فرشتوں کو نہیں لکھواتے!
حکیم صاحب حدیث سناتے ہیں:” زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کروکہ میں (محمد )قیامت کے روز اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا“ جواباً بیٹی کہتی ہے : تو بہ کریں ابا! اتنے بڑے پیغمبر ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ کہاہوگا انہوں نے بڑی ہو میری امت عزت میں، رتبے میں، ترقی میں ۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں، چاہے فاقے کاٹ کر مر رہے ہوں لیکن سب سے زیادہ ہوں! ایک مقام پر بیٹی کہتی ہے : کاش میں خدا ہوتی ! میں ہر مرد سے ایک بچہ جنواتی ۔ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی شکست پر بیٹی والد سے کہتی ہے : ابا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اﷲ اوپر بیٹھ کر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ انضمام نے کتنے رنز بنانے ہیں اور ٹنڈولکر نے کتنے؟ سارے پاکستانی دعائیں کرتے ہیں اور آسٹریلیا والے بغیر دعاوں کے ہی 20 سال سے جیت رہے ہیں۔ انڈیا پاکستان کا میچ کیا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان نے اﷲ کو پریشان کیا ہوتاہے اور سارے انڈیا نے بھگوان کو مصیبت میں ڈالا ہوتا ہے۔ اگر ا ﷲ میاں نے ہی میچ جتوانا ہوتا تو 17، 17 سال کیوں لگادیتے ہمیں میچ جتوانے میں؟
ایک مقام پر لڑکی باپ سے کہتی ہے: آپ کا اور میرا خدا جدا جدا ہے کیونکہ جو دین آپ ہم پر ٹھونس رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ حکیم صاحب نامرد بیٹے کے بارے میں کہتا ہے: میرا بیٹا سوّر سے بھی بدتر تھااسی وجہ سے اس کو میں نے قتل کیا۔ نامرد بیٹے کے قتل کے بعد حکیم کہتا ہے : اسے قتل کر کے میں نے خدا کی غلطی کو ٹھیک کر دیا۔ ایک مقام پر کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں اور بیٹا پیدا کرنے کا ہنر مرد ہی کا ہے۔ بیٹی باپ سے کہتی ہے: بیٹیو ں کی قطار لگائی آپ نے خود۔۔۔! اور نام لگا رہے ہیں” اﷲ“ کا۔ آخر میں لڑکی ناظرین سے التجاءکرتی ہے : لوگوں سے کہو ! اور بھیک منگے پیدا مت کرو! روتی صورتیں اور بسورتی زندگیاں پہلے ہی بہت ہیں۔”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔“ اور لڑکی کہتی ہے میرا سوال یہ ہے کہ : صرف مارنا ہی جرم ہے پیدا کرنا کیوں نہیں ؟
حرمت ِ قرآن پر تو مسلم امہ یک جاں ویک زباں ہوجایا کرتے تھے ۔ پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ، جلسے ، جلوس شروع ہوجاتے تھے ۔ ناموس رسالت پر تو پوری دنیا کو ناکوں چنے چبوائے جاتے تھے ۔ امہات المومنین کے احترام کو اگر مجروح کیاجاتا تو ازواج مطہرات کی شان پر مرمٹنے والے چین سے نہیں بیٹھتے تھے ۔ لیکن نہ جانے امت مسلمہ کو کوئی سانپ سونگ گیا ، ان کے بیدار ضمیروں کو کوئی لاری لپے دے کر سلا گیا، نہ جانے ان کے غیرت وحمیت کے جنازے کو کوئی کندھا دے کر دفنا گیا، امت مسلمہ کے یک لخت جسم میں انجانے رہزنوں نے نقب زنی کی اور کھرچی لے کر ان کے قلب سے حب رسول ، ازواج حب رسول ، اصحاب حب رسول کے پودوں کو ایک ایک کر کے اکھاڑ پھینکا ! یا پھر اُمت ِمسلمہ کو کانوں کان اس کی خبر ہی نہیں ہوئی ، یا ان غلیظ اور توہین آمیز مناظر کو ان کی آنکھوں نے دیکھنا گوارہ نہ کیا۔
ماقبل میں ذکر کیے گئے کفریہ ڈائیلاگ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس فلم میں ان سارے جرائم اور گناہوں کا ارتکاب کیا گیا ۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے نکل گئے ہیں کہ خدا بننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور اﷲ کے آخری نبی جناب محمد الرسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا انکار کر کے کہا گیاہے کہ نعوذ با ﷲ ہم حدیث میں اپنی مرضی کی تاویل کر کے حضور ﷺ کی عزت بڑھا رہے ہیں۔۔۔! سر عام اس قسم کی گستاخیاں کی گئیں ، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کیے گئے ، اسلام کے بنیادی عقیدے ” تقدیر “ کے متعلق اول فول بکا گیا ۔فرشتوں کی توہین کا ارتکاب کیا گیا ، اسلام کے بنیاد میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی ۔ جو غیروں سے پچاس سالوں میں نہ ہوسکا ” آستین کے سانپ “ کی مانند اپنوں نے وہ ایک فلم کے ذریعے ہی کرڈالالیکن۔۔۔! اعلیٰ عہدوں پر فائز کسی سرکاری وغیر سرکای شخصیت کی جانب سے نہ تو اس پر کوئی ایکشن لیا گیا اور نہ ہی مذمتی بیان آیا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی احتجاج بھی اس فلم پر رکارڈ نہیں کیا گیا۔ اسلام کی دعوے دار جماعتیں بھی اس معاملے پر تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ کسی تنظیم یا اعلیٰ شخصیت کی جانب سے شعائر اﷲ اور شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرنے والی ،درجن بھر گستاخیوں کی جامع اس فلم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ تعجب اس فلم کے بنانے والوں پر نہیں خاموش رہنے والوں پر ہے !
ا س فلم کا مشہور ڈائیلاگ جو زبان زد عام ہوچکا ہے یہ ہے کہ ۔۔۔” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ! کیا رزق کے ذمہ دار والدین ہیں ؟قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو ۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کوبھی ۔ ہر بات ایک واضح کتاب میں درج ہے ۔ (سورة ھود : آیت نمبر ۵) ۔ پانی کے اندر مچھلیوں کو رزق دینے والا کون ہے ؟ جنگلوں میں جانوروں کی پرورش کرنے والا کون ہے ؟صحراوں اور بیابانوں میں مختلف النوع حشرات کے رزق کا کفیل کون ہے ؟پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر بسنے والے کیڑوں کو ان مہر زدہ چٹانوں میں زرق کو ن مہیا کرتا ہے ؟ فضاوں میں اڑنے والے پرندوں اور زمین پر رینگنے والی مخلوق کا پیٹ کون بھرتاہے اس نیلگوں آسمان تلے پرورش پزیز مختلف الانواع قسم کی مخلوقات کے رزق کا کفیل جب وہ قادر ِ مطلق ذات ہے تو اشرف المخلوقات کے تمغہ امتیاز سے نوازے گئے اس نبی نوع انسان کے رزق کا ذمہ داراس ذات کے سوا کون ہوسکتا ہے ۔؟
جب رزق کا ذمہ اﷲ کاہے تو اس جملے ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ کا کیا مقصد؟اﷲ پر تہمت زنی کرنے والی اس بدبخت لڑکی کے اس جملے پر ذرا غور کرومسلمانوں! ” فرشتوں کے پاس ضرور ہماراایڈیس غلط لکھا ہوگا“ کیونکہ ہمارے ہاں تو رزق نہیں پہنچ رہا“ تو اس فقرے کا کیا مطلب ؟کیا ماقبل میں ذکر کی گئی قرآن کی آیت کا صریح انکار نہیں ؟کیا معاشی بدحالی کی صورتیںدکھا کر ” مسلم نسل کشی “ کی مہم پرپلیننگ کے تحت عملد رآمد شروع کردیا گیا ہے ۔ خاندانی منصوبہ بندی کا ڈونگ رچانے کے بعد ،” دو بچے ہی اچھے“ کا نسخہ متعارف کروانے کے بعد ” کم بچے خوشخال گھرانہ “جیسے فقرے جو مٹھائی میں زہر بند کرنے کے مترادف ہے کی شاندار کامیابی کے بعد اب نیا جملہ مارکیٹ میں لایا گیا ہے ! کہ ” جب ہمیں کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا“ ۔ ظالموں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش مت کرو۔ اپنی وفاداری کی تاریخ رقم کرنے کی فکر میں مسلمانوں کی نسل کشی مہم کا حصہ مت بنو ، کھلتے پھولوں کو مسل کر ان سے زندگی کا حق مت چھینو!
فلم کے ایک سین میں پیغمبر دو جہاں ﷺ پر نازل کی گئی آخری الہامی کتاب ”قرآن مجید “ کی بے حرمتی اس انداز میںکی گئی کہ ۔۔۔تھانیدار ایک حکیم صاحب سے قتل کی تفتیش کے دوران سگریٹ کی مالش کرتے ہوئے اس میں تمباکو برابر کرتے ہیں اور احترام اور تقدس کا خیال دل میں لائے بنا دراز سے قرآن کریم کے نسخہ کو نکالتے ہیں اور سامنے برا جمان حکیم صاحب کے سامنے میز کے کنارے پر قرآن کریم رکھتے ہوئے( بلکہ تقریباً پٹختے ہوئے) اس پر ہاتھ رکھ کر صدق بیانی کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حکیم صاحب بظاہر قرآن کے تقدس کا لاج رکھتے ہوئے اس پر ہاتھ رکھنے سے احتراز کرتے ہیں اور اعتراف جرم کرلیتے ہیں ۔ تھانیدار صاحب بغیر کسی ظاہری وباطنی احتیاط واحترام کے قرآن مجید کو اٹھا کر دراز میں رکھ دیتے ہیں اور چند لمحے توقف کے بعد پھر سے سگریٹ کو سلگانے لگتے ہیں۔
اس گھناونی فلم کا ایک تاریک منظر یہ بھی ہے کہ۔۔۔ حکیم صاحب کی بیٹی کے رشتے کے سلسلے میں آئے ہوئے مہمان دوران گفتگو حکیم صاحب سے یہ کہتے ہیں کہ دولہا کا نام تو ” مصطفی“ ہے اور تمہاری بیٹی کا نام ” عائشہ “ ہے یہ بھی اچھی بات ہے کیا ہی مقدس سنت پوری ہو رہی ہے، جس پر حکیم صاحب گویا ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح تو میری دیگر بیٹیوں کے نام بھی ازواج مطہرات کے ناموں جیسے ہی ہیں تو کیا (نعوذ بااﷲ) میں ان کی شادی بھی ” مصطفی “ سے کروادوں!
فلموں میں پیغمبر دوجہاں ﷺ کے پاک نام کو استعمال کرنا، آپ کی ازواج مطہرات کے مقدس ناموں کا استعمال کرنا۔ غلیظ اور کمینے جوڑے کی جھوٹی شادی کو آقائے نامدار ﷺ کی ازدواجی زندگی سے تعبیر کرنا، دیگر بیٹیوں کے نام ازواج مطہرات کے ناموں سے مشابہہ رکھ کر اس فلم کے کردار اور نبی آخر الزمان ﷺکے مابین مشابہت اور تمثیل کی صورت پیش کر کے پیغمبر انقلاب کی ازدواجی حیثیت کو مجروح کرنا۔ یہ کہاں کا انصاف ، کہاں کی شرافت ، کہاں کی انسانیت اور کہاں کی مسلمانی ہے ؟امت محمدیہ کے نوخیز نسلوں کی آبیاری جب اس طرح بدبودار متعفن ماحول میں کی جائے گی، ان کھلتے پھولوں کے اخلاق وکرادار کو جب اس طرح روندا اور کچلا جائے گا۔ امت مسلمہ کے ان ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کو جب اس طرح کی آلودہ فلمیں دکھائی جائیں گی تو رفتہ رفتہ ان کے پاک قلوب بھی آلودگی کا شکار ہونے لگیں گے ، ان کے کچے ذہنوں میںخباثت اگلتی یہ فلمیں انمٹ نقش چھوڑ دے گی اور لادینیت کے بہتے طوفانوں میںبے سہارے تنکوں کی طرح انہیں بہا لے جائے گی۔ وہ طوفان جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ ہی کوئی منزل ، وہ کشتی جس کا نہ کوئی ملاح ہو نہ ہی کوئی مسافر ۔ بستیاں اجاڑتے اس طوفان میں جو اس تنکے اور بے سہارا کشتی کا حال ہوتا ہے کہ کبھی ایک چٹان سے ٹکراتی ہے تو کبھی دوسرے چٹان سے ۔ ایک بھنور میں سے نکلتی ہے تو دوسری کھائی اس کی منتظر نظر آتی ہے۔ تباہی پھیلانے والے اس طوفان کے مدوجزر کے رحم وکرم پر جس کشتی کو چھوڑ دیا جائے تو اسے پاش پاش ہونے سے کون روک سکتاہے ؟ اس کشتی کو ریزہ ریزہ ہو کر اس طوفان کا حصہ بننے سے کون روک سکتا ہے؟چند ہی لمحوںمیں اس کشتی کا نام ونشان ختم ہوکر رہ جائے گا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی اس طوفان میں شدت کا باعث بن سکے گی اور بس!
اگر کل قیامت کے دن شافع محشر جناب محمد الرسول اﷲ ﷺ اعراض فرمالیں کہ میری ناموس پر کوئی احتجاج کرنے والا بھی نہ تھا ، میری لاڈلی ”حمیرا“کی تقدس کا لاج رکھنے والا کوئی نہ تھا ، امہات المومنین کے کردار کو داغ دار کر کے پیش کیا جارہا تھا اس داغ کو اپنے سینوں پر لینے کے لیے کوئی ایک تنظیم ، جماعت ، صاحب اقتداراور جاہ حشمت کا مالک کوئی ایک فرد تیار نہ تھا۔ لوح پر لکھے گئے اس پاک کلام کے احترام کو جب سرِ بازار نیلام کیا جارہاتھا ، اس لاریب کتاب کی آیتوں کا سرعام انکار کیا جارہا تھا ۔ تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے بدبخت کو کوئی ”مجرم “ کہنے کو تیار نہ تھا ، کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہ تھا ، کوئی ان کے اس گھناونے جرم کو آشکار کرنے کے لیے آمادہ نہ تھا ، صحافت کو چوتھے ستون سے تعبیر کرنے والے ذرائع ابلاغ کے دوسرے ادارے اس عظیم جر م پر خصوصی ایڈیشن نکالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ مصلحت کی لمبی چادریں صرف اس وجہ سے اوڑھی گئی تھیں کہ یہ فلم ایک بڑے ابلاغی ادارے کی جانب سے ریلیز کی گئی ہے کہ اگر ہم اس کے خلا ف آواز اٹھائیں گے تو یہ ادارہ ہماری کردار کشی کردیگا، میڈیا کی طاقت سے ہمیں رسوا کرد ے گا ۔ اپنی فکر تو تمہیں خوب تھی لیکن تمہارے سامنے میرا مذاق اڑایا جا رہا تھا ، مجھ پر نازل کی گئی آخری کتاب قرآن کریم کا مذاق اڑا یا جارہا تھا ، فرشتوں کا مذاق اڑایا جارہا تھا ، میری ازواج کا مذاق اڑایا جارہا تھالیکن اس وقت تمہیں اپنے کردار کی فکر تھی ، اپنی عزت کی فکر تھی ہماری نہیں تو کل تم نے مجھ سے اعراض کیا آج میں تم سے اعراض کرتاہوں تو بتاو کیا حال ہوگا اس وقت!
قابل قدر قارئین !اس مضمون کے توسط سے میری ہر خاص وعام مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے ، جوان اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ایک فرد سے گزارش ہے کہ ۔۔۔!ہر سطح پر گمراہی کے اس طوفان کے آگے بند باندھا جائے ، ہر نہج پر اپنا احتجاج اس کے خلاف رکارڈ کروایا جائے ، اس چینل کو دیکھنا بند کیا جائے ، اشتہار دینے والے اس چینل کو اس وقت تک اشتہارات نہ دیں، نعت خواں حضرات اس چینل کے پلیٹ فارم سے نعت خوانی اس وقت تک ترک کردیں ۔ کہ جب تک سر عام گستاخیاں کرنے والے عوام اور میڈیا کے سامنے اعتراف جرم نہ کر لیں اور اس پر قوم سے صدق دل سے معافی طلب نہ کر لیں ۔ محترم قارئین! ہو سکتا ہے اس تھوڑے سے بائیکاٹ سے گستاخیوں کے مرتکب ٹولے کو توبہ کی توفیق مل جائے ۔ یا کم از کم اس معمولی سے احتجاج کے طفیل حوض کوثر پر آقا مدنی کریم ﷺ کے ہاتھوں کوثر کا جام ہی نصیب ہوجائے۔
سلیم احمد عثمانی
نیاایڈیشن
جدید اضافوں کے ساتھ، رنگین صفحات
نیا ایڈیشن2012 شائع ہوگیا
اپنے مدرسے ، اسکول کے لئے آڈر بک کروائیں
0321-5083475 - 0322-2984599
Subscribe to:
Posts (Atom)